Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

ڈرنے والے کیلئے جنت کا وعدہ

ماہنامہ عبقری - فروری 2018ء

ندامت کی آہ!:ایک درویش کی خدمت میںمیں بیٹھتا تھا، تب میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا اور میں حضرت خواجہ سیدمحمد عبداللہ ہجویری رحمۃ اللہ علیہ سے ابھی تک بیعت نہیں ہوا تھا اور نہ ہی ان سے تعارف ہوا تھا۔ بس شروع سے یہ طبیعت میں تھا، میرے مزاج میں تھا کہ اللہ والوںکے پاس بیٹھنا ہے، اللہ والوں کو تلاش کرناہے۔ ایک دہلی کے درویش تھے ، بڑی شائستہ اورٹیکسالی اردو بولتے تھے۔ تو ان کے ہاں جا کرمیں بیٹھا رہتا تھا۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے مجھے ایک دفعہ فرمایا کہ: ’’میرے والد دہلی کے تھے اور والدہ میرٹھ کی تھیں۔‘‘ کہنے لگے :میں ایک دفعہ دہلی گیا ہوا تھا تو ہم کچھ دوست تھے، کاروبار کیلئے کچھ پیسے ہمیانی میں رکھے ہوئے تھے جو کمر کے ساتھ بندھی ہوتی ہے۔ وہ کہنے لگے: ’’ہم سفر میں تھے، گرمی کا دن ،گرمی کا موسم اورلمبا سفر تھا پیدل سفر تھا، ہمیں دور کسی اور علاقے میںجانا تھا۔ درمیان میں ایک بستی آئی تو ہم نے سوچا کافی دھوپ ہے،یہاں کچھ دیر ٹھہر جائیں،کسی مسلمان کے ہاں پانی پی لیں، کھانا کھا لیں۔
تو کہنے لگے: ہم نے ایک شخص سے پوچھا، تو اس نے کہا: جی یہاں تو سارے ہندو رہتے ہیں،ہاں! ایک مسلمان ہے اور وہ فلاں گھر میں رہتا ہے۔وہ بالکل تنہا رہتا ہے، اس کے ماں باپ نہیں ہیں اور خود بوڑھا ہے۔ ہم نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے آواز آئی آجائو۔ ہم اندر چلے گئے تو وہ بابا جی بیٹھے گوشت کاٹ رہے ہیں اور ساتھ ہی خنزیر کی سری پڑی ہوئی تھی وہ اس خنزیر کا گوشت ٹکڑے ٹکڑے کر رہے تھے، ہم بیٹھ گئے۔ ہم نے حیرانی سے کہا: بابا جی کیا حال ہے؟ کیسے ہیں؟ کیا کررہے ہیں؟ بابا جی کہنے لگے: بیٹا! بوڑھا آدمی ہوں، بس جانور ذبح کرکے اس کا گوشت بناتا ہوں، پھر اس کو دھاگے میںپرو کے سکھادیتاہوںخشک کرلیتا ہوں، پھراس میںسے روزانہ کچھ کھاتا رہتاہوں۔ہم نے پوچھا:کہ بابا جی یہ تو خنزیر ہے ناں؟کہا ہاں ہاں!خنزیر ہے۔ ہم نے ان سے کہا: بابا جی یہ تو حرام ہے،اسلام نے اسے حرام قرار دیا ہے۔ کہنے لگے: اچھا! مجھے تو پتہ ہی نہیںاور ہم نے جب اس کو بتایا کہ یہ حرام ہے بس ایک دم اس کی آہ نکلی اور وہ مر گیا۔ ہم نے سمجھا شاید بے ہوش ہو گیا ہے پانی کا چھینٹا مارا، دیکھا تو بابا تو جا چکا تھا۔ وہ تو لمحوں میں عارضی وطن سے اصلی وطن کا سفر طے کر چکا تھا ۔
تب ہماری سمجھ میں آئی کہ اللہ پاک نے اس کے کفن دفن کیلئےیہاں ہمیں بھیجا تھا، اکیلا، تن تنہا مسلمان تھا ہندو بستی تھی، پتہ نہیں اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا۔ تکفین و تدفین میں ہندو بھی ہمارے ساتھ ہو گئے کیونکہ اس وقت رواداری و محبت تھی، ہم نےمل جل کر قبر کھودی، ہم تین آدمی تھے۔ ایک امام اور دو مقتدی بن گئے اور اس کا جنازہ پڑھ کر اس کو دفن کر دیا۔ تدفین کے اس عمل سے کافی تھک گئے تھے‘ آگے ایک سرائے تھی وہاں گئے، جی بھر کے کھانا کھایا۔جب پیسے دینے کا وقت آیا تو دیکھا پیسے تو ہے ہی نہیں!اور وہ ہمیانی تو کہیں کھل گئی تھی۔ وہ کہنے لگے: اب ہم پریشان ! یا اللہ ہم کیا کریں؟ پیسے کہاں سے لائیں خیال آیا کہ شاید ہمیانی قبر میں گری ہے ۔
اب اس سرائے والے کے پاس کچھ چیزیں رکھوائیں، و اپس گئے اور راستے بھر دیکھتے آئے۔ یہاں تک کہ قبر پر واپس آگئے۔ اب ہم نے مشورہ کیا کہ کیا کریں ایک ساتھی کہنے لگے بھئی ہمیانی قبر والے کے کام کی تو نہیں ہے اور ہمارے پاس اس کی عدم دستیابی کافی تکلیف دہ ہے لہٰذا قبر سے ہمیانی نکال لیتے ہیں۔
اب قبر کو کھولنا شروع کیا تو کھولتے کھولتے کچھ اینٹیں ہٹائیں،کچھ جگہ بنائی تو میرے ایک دوست نے اندر جھانکا اور دیکھ کر کہنے لگے: ’’جی اندر تو کچھ بھی نظر نہیں آرہا، اندھیرا ہی اندھیرا ہے اور میت بھی نظر نہیں آرہی‘‘دوسرے ساتھی نے بھی یہی اندھیرا دیکھا۔وہ درویش فرمانے لگے کہ: پھر میں نے اور جھانکا اور مجھے باقاعدہ انہوںنے جیسے التحیات میں بیٹھتے ہیں ایسے بیٹھ کر دکھایا اور فرمانے لگے: ’’میںنے ایسے بیٹھ کے اندر دیکھا توکہنے لگے کہ اندر روشنی ہی روشنی تھی، وسیع میدان تھا،وہ بابا ایک تخت پر بیٹھا ہوا ہے اور قرآن اس کے سامنے کھلا ہوا تھا ۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ یہ کیاہے؟باباجی کہنے لگے کہ: اللہ کے خوف سے مجھے جو جھٹکا لگا تھا اور حرام اور حلال کا جو خوف آیا تھا اس خوف کے صلے میں اللہ پاک نے مجھے یہ جنت عطا کر دی۔(یعنی جو اللہ کے خوف سے ڈر گیا اس کے لیے جنتوںکا وعدہ ہے) تو وہ بابا جی کہنے لگے :مجھے اللہ پاک کا جو خوف آیا تھا ناں!!! نابس اُس خوف کی وجہ سے مجھے جو جھٹکا لگا تھا یہ اس کا صلہ میرے اللہ نے مجھے دیا ہے۔ کہنے لگے: ہمیں وہ ہمیانی مل گئی اس جنت کی روشنی کی وجہ سے، وہ ہم نے نکالی اور اپنی ضرورت پوری کی۔‘‘کہنے لگے : ’’میں نے خود یہ منظر دیکھا تھا۔ ‘‘مکلی کا قبرستان:بہت پرانی بات ہے کہ میں مکلی کے قبرستان میں تھا ہزاروں سال پرانا قبرستان ہے۔ تاحدِ نظر پھیلا ہوا ہے۔ ایک دفعہ میںنے سوچا کہ میں اس کو سارا عبور کرونگا آپ یقین جانیے سردی کا دن تھا میں صبح سے اس ویرانے قبرستان میںچلتاجارہاتھا۔وہاں انسان کا تو گمان ہی نہیں ہے، قبریں ہی قبریں ہیں، پرانی قبریںہیں، عجیب مقبرے ہیں۔چلتا گیا، چلتا گیا ،چلتا گیا ،حتیٰ کہ دن ڈوبنے لگا۔ میں نے سوچا کہ: قبرستان تو ختم نہیں ہو رہا میں واپس کیسے جائونگا۔ یعنی پورا دن چلتا رہا مگر قبرستان ختم نہ ہوا۔ (جاری ہے)


ایک نورانی صاحب قبر کی زیارت
رات کے وقت میںسورۃ مزمل پڑھ رہا تھا۔ بہت سخت سردی تھی۔ ہوا بار بار میرے کمبل کو اڑا رہی تھی۔ کمبل کے اوپرایک چھوٹا پتھر رکھا لیکن ہوا نے اس کی پرواہ نہ کی ،میں نے سوچا کہ میں یہاں سے اٹھ کرسامنے پڑاہوا بڑاپتھر اٹھا کر کمبل کے دونوں طرف رکھ دوں پھر یہ ہوا سے نہیں اڑے گا۔
بار بار میرے عمل میں خلل پڑ رہا تھا اس لئے میں نے اٹھ کر جب وہ پتھر اٹھانے کی کوشش کی تووہ پتھر کسی قبر کے اوپر پڑا ہوا تھا۔ قبر کے اوپر کوئی نشان نہیں تھا۔ نشان پتا نہیں کب کا مٹ چکا تھا اور اس کے اندر سفید کفن نظر آیا۔ پتھر اٹھانے سے قبر کا کچھ ٹکڑا مٹی کے اندرگر گیا اور قبر کا حصہ کافی کھل گیا۔ چاندنی راتوں کی ایک روشن رات تھی۔ اس قبر کے اندر میں نے دیکھا کہ میت پڑی ہوئی ہے۔ پہلے تھوڑا خوف سا ہوا لیکن پھر اللہ پاک نے اپنے نام کی برکت سے تسلی دی، میں نے سوچا کہ اس میت کا سر اور پائوں کس طرف ہو گا۔ قبلے کے رُخ کا تعین کیا تو میں نے سوچا کہ اس طرف سر ہونا چاہیے اور اسی طرف سر تھا اس کا، میں نے سوچا کہ اس کا چہرہ کھول کر دیکھوں کہ اس کا چہرہ کیسا ہے۔ تو میں یہ دیکھنے کیلئے بیٹھ کرنیچے جھک گیا۔ رات کے غالباً دو ڈھائی بجے کا وقت تھا، سردی کی راتیں تھیں اور سناٹا تھا۔ میں نے جھک کر اُس کفن کی تہیں کھولیں تو یقین جانیے میرے ہاتھوں نے محسوس کیا کہ وہ کفن نہیں تھاکوئی کلف لگا ہوا کپڑا تھا جس کی کڑکڑاہت کی آواز آئی۔بالکل نیااور دیسی رنگ اور ہاتھ کا بنا ہوا کپڑا تھا ، محسوس ہو رہا تھا کہ یہ مشینی کپڑا نہیں ہے مشینی دور سے بہت پہلے کی دنیا کا کپڑا ہے ، اس کو کھولا تو ایک چہرہ نظر آیا۔ عمر کا اندازہ ہو رہا تھا کہ اسی، بیاسی کے آس پاس ہے، گلاب کی طرح کھلا ہوا چہرہ تھا، آنکھیں بند تھیں اور منہ قبلہ کی طرف تھا، بالکل تروتازہ چہرہ، میں نے آنکھ کے پیبوٹوں کو ہاتھ لگایا تو مجھے نرم محسوس ہوئے، ہونٹوں کو ہاتھ لگایا تونرم محسوس ہوئے۔
عجیب و غریب خوشبو آرہی تھی کفن کا پرت کھولتے ہی خوشبو پھیل گئی اتنی خوشبو کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔ میں نے اس کے کفن کو مزید کھولا تو سینے پر سفید بال تھے اس سے آگے کفن نہیں کھولا۔ درمیانہ جسم تھا نہ زیادہ بھاری نہ زیادہ ہلکا۔ دراز قد تھا سینے پر میںنے انگلیاں لگائیں،پپوٹوںپر لگائیں، ہونٹوں پر لگائیں، گالوںپر لگائیں،داڑھی کے بالوںپرمیںنے یہ سوچ کر انگلیاں پھیریں کہ شایدبال گرجائیں لیکن داڑھی کے بال بھی نہیں گر رہے تھے۔ جسم ایسا تھا جیسے ابھی مسلا کر گئے ہیں اور انوکھی بات ہے، سخت سردی تھی مگر جسم گرم تھا۔ میرے ہاتھ یخ بستہ تھے، سردی میں ٹھٹھر رہے تھے، کیونکہ کمبل سے تو میں نکل آیا تھا، ایک جذبے نے مجھے کمبل سے نکالا تھا۔ میرے ہاتھ ٹھنڈے تھے لیکن وہاں رکھتا تو گرم محسوس ہوتا۔ ایک طرف ٹھنڈا اور دوسری جانب گرم ہو تو احساس زیادہ ہوتا ہے۔ میں نے اپنے طور پر باتیں کیں، میںنے اللہ سے دعا کی کہ: اے اللہ! اپنے اس بندے تک پہنچا دے بہت دیر تک دعا کی میں نے ’’اے اللہ! اپنے بندے تک تو ہی پہنچا سکتا ہے۔‘‘ اس کے بعد اس قبر کو میںنے پتھروں سے صحیح طرقے سے بند کیا۔ بند کرنے کے بعد میں پھر اپنے عمل میں مشغول ہو گیا۔
خواب میں اس نورانی بزرگ سے ملاقات
صبح کو میں نے ایک جگہ فجر کے بعد کچھ اور اعمال کیے تھے جو میں نے ان صاحبِ قبر کوہدیہ کر دیے۔ اس کے بعد میں لیٹ گیاتو خواب میں ایک صاحب میرے پاس آئے اورکہنے لگے کہ: ’’صدیوں بعد بس تو ہی میرے پاس آیا ہے اور اللہ نے تجھے بھیجا ہے، تیرے ہدیے مجھے ملے ہیں میں تیرا مشکور ہوں، تیرا شکر گزار ہوں۔ ایک وعدہ کر کہ اب مجھے ہدیہ دیتا رہے گا۔ اور یہ وعدہ بھی کر کہ اپنی نسلوںکو بھی وصیت کرنا کہ تمہارے والد کا ایک دوست تھا، وہ ہدیہ مانگتا تھا، میںنے اس کو ہدیہ دیا تم بھی دیتے رہنااور اپنی نسلوں کو بھی یہ کہناکہ وہ اپنی نسلوں کو وصیت کریں۔‘‘میں نے پوچھاکون ہیں۔۔۔؟کہنے لگے: ’’میں جوہری ہوں جوہری۔‘‘
وہ نورانی بزرگ کون تھے؟
ان بزرگ نے ایک پرانے بادشاہ کا نام لیا،انوکھا سا نام تھا، کوئی پتا نہیں کونسی صدی کا بادشاہ تھا یہ صاحب قبر اس کا جوہری تھا۔میںنے ہمیشہ کھوٹے کو کھوٹا کہا ، کھرے کو کھرا کہا اور کبھی دھوکہ نہیں دیا۔ ان بزرگ کاایک اللہ والے سے روحانی تعلق تھا، اُنکی مان مان کر چلتے تھے، اُن سے پوچھ کر چلتے تھے، اُن کی مانے بغیر میں کوئی کام کرتے ہی نہیں تھے۔
ایک دفعہ وہ جانے لگے ان کا آخری وقت تھا ،میں نے ان کا ہاتھ پکر کر ان سے کہا کہ شیخ۔۔۔۔! دعا کریں اللہ پاک آپ کا ہاتھ قیامت میں بھی سلامت رکھے اور آپ وعدہ کریں کہ اللہ پاک جب آپ کو جنت میں بھیجے گا توآپ مجھے نہیں چھوڑیں گے۔ اس صاحب قبر کے شیخ نے یہ وعدہ کیا اور یہ وعدہ بھی کیا کہ جو بھی تیرا ہاتھ پکڑے گا اللہ اس کو بھی جنت میں بھیجے گا کیونکہ میں اس کا ہاتھ بھی پکڑونگا ۔‘‘ تو میںنے خواب ہی میں اس صاحب قبر کا ہاتھ پکڑ لیا۔ پھر میں نے کہا :آپ مجھ سے وعدہ کریں کہ آپ مجھے بھی اپنے ساتھ جنت لے کر جائیں گے وہ بڑے خوش ہوئے اور کہنے لگے: ’’آج تیرے ہدیے نے بڑے درجات بلند کر دئیے، صدیوں بعد کوئی بندہ آیا ہے، میں تجھ سے وعدہ کرتا ہوں اور جو بھی تیرا ہاتھ پکڑے گا اس کیلئے بھی وعدہ کرتا ہوں، لیکن ایک وعدہ تو بھی کر لے کہ مجھے ہدیہ بھیجنا نہ چھوڑنا، مجھے ہدیہ بھیجتے رہتا۔ ‘‘
دیکھیں کہ کیسی عجیب بات کہی کہ میں بادشاہ کاجوہری تھا میں نیحق کو حق کہا۔ میں نے ان بزرگ سے بہت باتیں کیں۔ وہ بزرگ کہنے لگے: میںنے کھرے کو کھرا کہا اور کھوٹے کو کھوٹا کہا۔ میرے آقا ﷺکی ایک حدیث ہے کہ :دیانتدار تاجر قیامت کے دن انبیاء کرام اور صدیقین کے ساتھ ہو گا۔ نبیین، صدیقین ،شہداء اور صالحین وہ انعام یافتہ چار قسم کے لوگ ہیں جو قرآن پاک میں بیان گئے ہیں۔ ان چار لوگوں کے ساتھ سچا تاجر جو ہے وہ کھڑا ہو گا ۔

 

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 390 reviews.